حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بسلسلہ شہادت حضرتِ سیدہ فاطمہ زہراءبنت رسول اکرم بر مکان سید علی کوثر نقوی مرحوم کے اہل خانہ کی جانب سے ایک مجلس عزاء منعقد کی گئ جس میں نظامت مولانا سید محمدزمان باقری امام الجماعت مسجدشیعہ قلعہ و ممبر آف آل انڈیاشیعہ پرسنل لاء بورڈ لکھنو نے انجام دی۔ آپ نے مدح زہرا (س) میں اشعار بیان پڑھے۔
اسکےبعد تقی عباس نے سوز و مرثیہ خوانی کی
بابا کو روتے روتے جو زہراء گزر گئیں
غل پڑ گیا کہ بنت نبی کوچ کر گئیں
فاقوں کے رنج سہہ کر حضور پدر گئیں
محب کبریا کی عزادار مر گئیں
اٹھارویں برس میں یہ آفت دکھائی ہے
آل نبی کو چرخ نے لوٹا دوہائی ہے۔
پھر عباس حیدر بیگ نے مدح شہزادی عالمیان بی بی حضرت فاطمہ زہراء میں اشعار پیش فرمائے
بس آرہاہے فاطمہ زہراء کا لاڈلا
کہدو منافقوں سے زرا ہوش میں رہیں
مجلس کو مولانا سید عباس ارشاد نقوی لکھنوی نے خطاب فرماتے ہوئے تاریخ کے حوالے سے شخصیت معصومۂ عالمیان (س) پر روشنی ڈالی مشہور محدث امام طبرانی ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی جن کو ذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں معتبر سمجھتے ہیں کتاب المعجم الکبیر میں جو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے خطبہ اور ان کی وفات کے متعلق لکھتے ہیں۔
خلیفۂ وقت نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کہا اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا ۔تین کاموں کو انجام دیتا اور تین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم(ص) سے سوال کرتا:وہ تین کام جنکی میں آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیئے ہوتے ان میں سے ایک حضرت فاطمہ زہرا(س) کے گھر کی بے حرمتی ہے اے کاش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا۔
مولانا موصوف نے بیان فرمایا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزند یوسف پر گریہ فرمایا جب کہ وہ زندہ تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ گریہ کرنا شیعت کی علامت نہیں ہے بلکہ نبی ہونے کی علامت ہے اور پھر جناب یعقوب(ع) نے اپنے فرزند کی جدائی پر صبر کیا اور آنسو بھی بہائے اس سے آپ نے واضح فرمایا اور سب کے نام ایک پیغام نبی علیہ السلام نے دیا کہ گریہ کرنا خلاف صبر نہیں ہے مصیبت پر اللہ سے شکوہ کرنا خلاف صبر ہے۔ عام طور پر سوچا یہ جاتا ہے کہ جب ہم گریہ کریں گے تو صبر کی مخالفت ہے اگر ہم آنسو بہائیں گے تو یہ صبر کے خلاف ہے تو پھر قرآن سے سمجھیں کہ صبر کیا ہے مصیبت آئی اور پھر اس پر اللہ سے شکوہ کرنا خلاف صبر ہے مگر گریہ کرنا خلاف صبرنہیں ہے خدا کی قسم ہم کربلا پرچودہ سو سال سے گریہ کر رہے ہیں مگر خدا سے شکوہ نہیں کرتے یقین نہ آئے تو ہماری مساجد میں جا کر دیکھ لیجئے کہ جس کربلا پر ہم گریہ کرتے ہیں اسی کی مٹی پر ہم سجدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ ہم مصیبت پر صبر کرتے ہیں خدا سے شکوہ نہیں کرتے۔
مولانا نے کتاب بخاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ روایت ہے کہ جب پیغمبر اسلام(ص) کے فرزند جناب ابراھیم علیہ السلام دنیاسے گزر گئے تو پیغمبر اسلام(ص) نے ان کی مصیبت پر آکر آنسو بہائے تو صحابیوں نے پوچھا کہ یا نبی اللہ(ص) آپ نبی ہو کر رو رہے ہیں تو فرمایا یہ رحمت ہے پھر فرمایا کہ اے ابراہیم(ع) ہم تم پر آنسو بہائیں گے مگر زبان سے وہی کہیں گے جو مشیت الٰہی کے مطابق ہوگا شکوہ کرنا خلافِ صبر ہے مگر گریہ کرنا خلاف صبر نہیں ہے ورنہ جناب یعقوبؑ گریہ نہ کرتے یا پھر اعلان صبر نہ کرتے اتنا گریہ کیا کہ آنکھوں کی روشنی چلی گئی اب جس قرآن میں یعقوبؑ نبی کی آنکھوں کی روشنی چلی جانے کا بھی ذکر ہے اسی میں روشنی آنے کا بھی تذکرہ ہے۔گویا بینائی کے جانے کا بھی ذکر ہے اور بینائی کے واپس آئے کا بھی ذکر ہے بینائی آنکھوں کی گئی یوسف پر گریہ کرنے سے مگر بینائی واپس آئی یوسف کے کرتے کی وجہ سے اب کوئی سوال نہ کرے کہ علم کے پھریرے سے شفاء کیسے ملتی ہے اس تعزیہ سے بیماریاں کیسے دور ہوتیں ہیں۔
مولانا موصوف نے مصائب حضرت صدیقہ طاہرہ(س) اور ان کی شہادت کا ذکر فرمایا جس سے مومنین میں صدائے گریہ بلند ہوئی اور مجلس کے اختتام پر انجمن غنچۂ اسلام قصبہ سرسی جناب شوبی نے نوحہ خوانی فرمائی اور ماتمی دستہ نے سینہ زنی برپا کی عزاخانہ سید علی کوثر نقوی مرحوم کلکتہ محلہ رامپور میں یہ مجلس فاطمیہ گزشتہ چند سالوں سے منعقد کی جارہی ہے جس میں کثیر تعداد میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں اور شہزادی عالمیان صدیقہ طاہرہ(س) کی پر درد و غمناک شہادت پر وقت کے امام حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو انکی جدہ کا پرسہ خانوادہ مرحوم و مغفور سید علی کوثر نقوی اور اس مجلس عزاء میں شامل ہونے والے مومنین و متعلقین پیش فرماتے ہیں۔